Saturday, October 13, 2012

ملالہ دراصل ہے کون؟

Posted: 12 Oct 2012 01:09 PM PDT
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کچھ دن پہلے 9 اکتوبر 2012ء کو نامعلوم حملہ آور کی فائرنگ سے اپنی دو ساتھیوں سمیت زخمی ہونے والی ملالہ یوسف زئی دراصل ہے کون؟ اس بارے میں میڈیا اور مختلف نقطۂ نظر کے ساتھ ساتھ اپنے خیالات کا بھی اظہار کرتا ہوں۔
میڈیا کے مطابق 2009ء کے شروع میں جب کسی تحریک طالبان پاکستان نامی مسلح گروہ نے سوات میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگاتے ہوئے اعلان کیا کہ 15 جنوری 2009ء کے بعد لڑکیاں سکول نہ جائیں، تو ان حالات میں سوات سے تعلق رکھنے والی ایک ساتویں جماعت کی طالبہ ملالہ یوسف زئی نے 3 جنوری 2009ء سے اپنی ڈائری لکھنی شروع کی، پھر یہ ڈائری ”گل مکئی“ کے قلمی نام سے بی بی سی اردو پر 9 جنوری 2009ء سے قسط وار شائع ہونی شروع ہوئی اور 13 مارچ 2009ء کو غالباً آخری اور دسویں قسط شائع ہوئی۔ اس ڈائری کے تمام لنکس تحریر کے آخر پر دے رہا ہوں۔ شورش زدہ علاقے کی دیگر کئی گمنام بچیوں کی طرح ایک گمنام ملالہ بھی تھی، مگر اسے اپنے اور اپنے علاقے کے حالات کے متعلق ڈائری لکھنے اور بی بی سی اردو پر شائع ہونے سے عالمی شہرت حاصل ہو گئی۔ بی بی اسی اردو کے مطابق اس ڈائری کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ ملالہ یوسف زئی کی تحریریں مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے لگیں۔ ملالہ پر بین الاقوامی میڈیا کے دو اداروں نے فلمیں بھی بنائیں۔ نومبر 2011ء میں پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اعلان کیا کہ ملالہ یوسفزئی کو سوات میں طالبان کے عروج کے دور میں بچوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے (جس کی بنیاد غالباً بی بی سی اردو پر ڈائری لکھنا تھا) پر ”امن ایوارڈ“ اور پانچ لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔ اس کے بعد خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے بھی پانچ لاکھ روپے کا اعلان کر دیا۔ ہمارا میڈیا تو کہتا ہے کہ ملالہ کو ستارہ جرات بھی دیا گیا جبکہ اس کا کوئی مستند حوالہ مجھے نہیں مل سکا۔
یہ تھی جی ملالہ یوسفزئی کی مختصر کہانی۔ اس بارے میں اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے سے پہلے اِدھر اُدھر کے دو چار تنقیدی نقطۂ نظر لکھ دیتا ہوں۔ ایک نقطۂ نظر تو یہ بھی ہے کہ یہ ڈائری کسی ساتویں جماعت کی طالبہ کی لکھی ہوئی نہیں بلکہ یہ کسی منجھے لکھاری کی لکھی ہوئی ہے۔ گو کہ لکھاری نے کوشش کی ہے کہ تحاریر سے بچپنا نظر آئے مگر پھر بھی تحریر میں پختگی واضح نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ کئی جگہوں پر نہایت مختصر انداز میں ایسے طنز اور تجزیے ہیں جو ایک بچہ پیش نہیں کر سکتا۔ خیر میں نے خود سے اس بارے میں تحقیق نہیں کی۔ ایک تو میں اس قابل ہی نہیں اور دوسرا مجھے اس کی ضرورت بھی نہیں، کیوں ضرورت نہیں؟ اس کیوں کا جواب اپنے نقطہ نظر میں لکھتا ہوں۔
ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ بالفرض یہ ڈائری واقعی ساتویں جماعت کی طالبہ ملالہ یوسف زئی کی ہی لکھی ہوئی تھی تو پھر بھی اس طرح قلمی نام سے ڈائری لکھنا اور اس کا شائع ہونا کوئی انوکھا، اچھوتا یا جرأت والا کام نہیں اور نہ ہی یہ کوئی ایسا کارنامہ تھا جو سوئے ایوانوں کو جھنجھوڑ سکے اور ان کی توجہ اپنی طرف دلاتے ہوئے اتنی شہرت حاصل کر پائے، کیونکہ یہ تو ایک بچی کے اور اس کے علاقے کے حالات تھے۔ اس ڈائری میں ایک بچی کی تعلیم سے تھوڑی بہت محبت تو ظاہر ہوتی ہے مگر اس میں تعلیم کے لئے آواز بلند کرنے اور جرأت والی کوئی بات نہیں تھی۔ ڈائری تو ایک خبرنامہ کی طرح تھی جس میں لکھا تھا کہ آج طالبان نے ایسا کیا، آج فوج نے ویسا کیا، یہ یہ ہوا اور میرا دل یہ یہ کرتا ہے۔ اوپر سے اس ڈائری میں طالبان مخالف کچھ تھا ہی نہیں، اگر کہیں پر طالبان کا ذکر ہے تو وہ بالکل اسی انداز میں کیا گیا ہے جیسے عام خبرنامے میں کیا جاتا تھا/ہے۔ البتہ کہیں کہیں چند جملوں میں فوج پر تنقید ضرور تھی۔
ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ جب سکیورٹی کے خدشے کے پیش نظر ملالہ فرضی نام (گل مکئی) سے بی بی سی اردو پر لکھ رہی تھی تو پھر عین جنگ کے دنوں میں بھی اور اس کے بعد بھی ملالہ کا نام کس نے اور کیوں عام کیا؟ یعنی اس حقیقت سے آخر کس نے اور کیوں پردہ اٹھایا کہ گل مکئی اصل میں ملالہ ہے۔ چلو ایسا کر بھی دیا گیا اور ملالہ کو ضرورت سے زیادہ مشہور کر دیا گیا تو پھر اس کی حفاظت کا آخر کیوں بندوبست نہ کیا گیا؟ جب کہ ابھی تک شرپسندوں کا زور موجود ہے۔
اس کے علاوہ کچھ لوگوں کا خیال ہے، ڈائری جو کہ ایک عام انسان کی تھی اور اس میں کوئی انوکھا اور اچھوتا نہیں تھا مگر پھر بھی پہلے اس ڈائری کے ذریعے ملالہ کو شہرت دلوائی گی، پھر بچوں کی تعلیم کے حقوق پر بولنے کے نام پر ملالہ کو منظرعام پر لایا گیا، پھر شہرت حاصل کرنے (کروانے) کے بعد ملالہ یوسف زئی کی باتوں اور سوچ کا رخ بچوں کی تعلیم کی بجائے کسی اور جانب کر دیا گیا یعنی طالبان مخالفت کی طرف کر دیا گیا۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ ایک بچی کو جب اس انداز میں پیش کر دیا گیا کہ وہ طالبان مخالف ہے تو پھر اسے سکیورٹی کیوں نہ دی گئی؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے۔
جو لوگ پاکستان میں میڈیا اور حکومتی ایوانوں تک رسائی کے معاملات جانتے ہیں، ان میں سے بعض کا نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ شورش زدہ علاقہ جہاں ہر کسی کو اپنی عزت، جان اور مال وغیرہ کی پڑی ہے، وہاں کی ایک عام لڑکی کا بی بی سی اردو تک اپنی تحاریر پہنچانا اور پھر ان کا شائع ہو جانا، ناممکنات کے قریب ہے۔ دراصل بڑے اداروں کو ایسے ہزاروں بچے لکھتے ہیں، ان میں سے منتخب شدہ تحاریر زیادہ سے زیادہ بچوں کے صفحات میں تو شائع ہو سکتی ہیں مگر اس طرح نمایا جگہ حاصل نہیں ہوتی۔مگر یہاں یہ کیونکر ممکن ہوا؟
ان سب باتوں کے جواب میں کچھ لوگ دبے الفاظ میں یہ کہتے بھی پائے گئے ہیں کہ ملالہ یوسف زئی ضرور کھاتے پیتے اور پہنچ رکھنے والے گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ جس وجہ سے وہ اس کام سے شہرت حاصل کر پائی۔ یا پھر کچھ اداروں کا یہ کوئی پہلے سے طے شدہ کھیل تھا، جو کھیلا گیا اور ملالہ یوسف زئی کو مہرے کی طرح استعمال کیا گیا۔ کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ عین ان دنوں میں جب عمران خان نے عالمی میڈیا کی توجہ ڈرون حملوں کی طرف دلانے کی کوشش کی تو دوسری طرف یہ کھیل چلا کر رائے عامہ دوسری طرف ہموار کرنے کی کوشش کی گئی۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کے لئے اسامہ بن لادن والی کہانی سب سے اہم تھی مگر اس پر بھی عالمی اداروں نے اتنے شادیانے نہیں بجائے تھے جتنے ملالہ یوسف زئی والے پر رو رہے ہیں۔ کہنے والے تو کہہ رہے ہیں کہ بی بی سی اردو تو جیسے ”ملالہ بی بی اردو“ بن گیا ہے۔ پاکستان میں آئے دن کئے بچے دھماکوں، ڈرون حملوں اور اس جنگ کی نذر ہو جاتے ہیں، مگر اس عالمی میڈیا کو وہ ہزاروں بچے نظر نہیں آتے مگر اس معاملے پر تو ایسے چیخ رہے ہیں جیسے ملالہ کوئی پاکستانی نہیں بلکہ امریکی ہے۔

اب آتا ہوں اپنے نقطۂ نظر کی طرف

ہر چیز سے بلا تر ہو کر میں ملالہ یوسف زئی پر ہونے والے حملے کی ہر حوالے سے مذمت کرتا ہوں۔ ملالہ یوسف زئی کے ساتھ ساتھ میں ہر اس ڈرون یا کسی بھی حملے کی مذمت کرتا ہوں جس میں کسی بھی بے گناہ انسان خاص طور پر بچوں کو نقصان پہنچے۔ طالبان، پولیس، فوج یا کسی بھی ادارے کے ہاتھوں اگر کوئی ماورائے عدالت قتل ہوتا ہے تو میں اس کی بھی شدید مذمت کرتا ہوں۔ میں ہر اس حملے کی مذمت کرتا ہوں جس میں غیر مسلح عام شہری مارے گئے۔ یہ حملے چاہے امریکہ نے کیے ہوں یا پاکستان نے، یہ حملے چاہے طالبان نے کیے ہوں یا کسی اور نے، میں ان سب کی شدید مذمت کرتا ہوں۔
ہمیں خبریں میڈیا کے ذریعے مل رہی ہیں اور میڈیا کتنے پانی میں ہے یا کیچڑ میں کس حد تک گرا ہوا ہے، یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں، اس لئے میں کس پر اعتبار کرتا ہوں اور کس پر نہیں کرتا، اس حوالے سے فی الحال کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ جہاں تک ہم عام شہریوں کی سوچ جاتی ہے، یہ عالمی ادارے اس سے بھی اوپر کے کھیل کھیلتے ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا کہ کہیں پر یہ بادشاہت کو سلام کرتے ہیں تو کہیں پر جمہوریت کا رونا روتے ہیں۔ کہیں پر لاکھوں بچوں کو لٹل بوائے اور فیٹ مین (جاپان پر گرائے جانے والے ایٹم بم) سے ہمیشہ کی نیند سلا دیتے ہیں تو کہیں پر ایک پاکستانی بچی کا دکھ بھی ان کے سینوں میں جاگ اُٹھتا ہے۔
خیر اپنے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ مجھے اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں کہ بی بی سی اردو والی ڈائری ملالہ یوسف زئی نے لکھی یا گل مکئی نے، ملالہ کھاتے پیتے گھر کی ہے یا غریب کی، یہ ڈائری شہرت کے لئے لکھی گئی یا کسی اور مقصد کے لئے۔ مجھے تو صرف اس بات سے لینا دینا ہے کہ ملالہ یوسف زئی میرے ملک کی ہے، ملالہ ایک کم سن بچی ہے اور اسے ان کھیلوں میں استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ اگر یہ ڈائری واقعی ملالہ نے لکھی تھی تو پھر بھی اس میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ ملالہ پر اس حد تک حملہ کیا جاتا اور بالفرض اگر کچھ تھا بھی تو کسی کو کوئی اختیار نہیں کہ اس پر حملہ کرے کیونکہ اس نے قلم سے لڑائی کی تو قلم کا جواب قلم سے ہوتا ہے نہ کہ گولی سے۔ میں ملالہ یوسف زئی پر ہونے والے حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ بالفرض اگر ملالہ یوسف زئی کو کسی ادارے نے مہرے کی طرح استعمال کیا ہے تو پھر میں ہر اس اس بندے یا ادارے کی اس حرکت کی مذمت کرتا ہوں جس نے اس بچی کو استعمال کیا۔
اے میرے ملک کی بیٹی ملالہ یوسف زئی! تو بولے، تیرا قلم بولے یا بی بی سی بولے، اس کا اصل کردار تو ہی ہے، تیرے بارے میں یہ میڈیا جو بتا رہا ہے چاہے وہ سچ ہے یا جھوٹ مگر میں تجھے اور ہر بچے کو سلام پیش کرتا ہوں۔ تم ایک ملالہ نہیں بلکہ اس ملک کا ہر ہر بچہ میرے لئے ملالہ ہے اور میں ہر محنتی بچے کو سلام کرتا ہوں۔ میں اس ڈائری سے مکمل اتفاق کرتا ہوں یا نہیں مگر میں تیرے حوصلے کو ضرور سلام کرتا ہوں۔ پیارے سوات میں شرپسندوں نے جو اُدھم مچایا، سکول بند کروایا، اس میں بھی تم اور تمہارے ساتھیوں نے تعلیم سے پیار دکھایا، میں تم سب کی اس تعلیمی چاہت کو سلام کرتا ہوں۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود حکومت نے تیری اور دیگر پاکستانی بچوں کی حفاظت کا بندوبست نہ کیا، پھر بھی تو سکول جاتی رہی، میں تیری اس بہادری کو سلام کرتا ہوں۔ تجھ پر اور اس ملک کے یا کسی بھی ملک کے بچوں پر حملہ کرنے والے، نہایت بزدل اور بے غیرت لوگ ہیں، میں ان کی اس حرکت اور سوچ پر لعنت بھیجتا ہوں۔ تم اور میرے ملک کا ہر ہر بچہ، وہ سوچ ہے جو ایک امید سحر ہے۔ تم لوگ میرے وطن کی ایک ایسی صبح ہو جو ایک خوبصورت دن کا پیغام دے رہی ہے۔ یہ شہرت، دولت اور یہ حکومتی ستارے، تم بچوں کے آگے کچھ بھی نہیں کیونکہ تم لوگ خود ایک روشن ستارہ ہو۔ میری دعا ہے اللہ تعالیٰ تم تمام بچوں کو مکمل صحت اور بے شمار خوشیاں دے اور تم لوگ یونہی روشن ستاروں کی طرح چمکتے رہو۔۔۔آمین
میرے اللہ ہم پر رحم کر اور ہمیں بہتر سے بہتر اور اچھے سے اچھا کرنے کی ہمت دے۔ یا اللہ اس بچی کی حفاظت فرما اور اسے مکمل صحت دے۔ ملالہ کی ساتھی زخمی لڑکیوں کو بھی مکمل صحت دے۔ اے میرے پروردگار میرے ملک کے تمام بچوں کی حفاظت فرما اور انہیں اتنا لائق کر کہ یہ ہمیں غربت و ظلمت کے اندھیروں سے باہر نکال دیں۔۔۔آمین
ملالہ یوسف زئی (گل مکئی) کی ڈائری کے تمام لنکس دے رہا ہوں۔ آپ بھی پڑھیے اور سوچئے کہ آخر اس میں ایسا کیا تھا کہ جو شرپسند اس حد تک گر گئے یا اس فرضی نام سے لکھی جانے والی ڈائری میں جرأت اور بہادری والی ایسی کون کون سی باتیں تھیں جو اس بچی کو اس خوف و خطر ناک مقام تک لے آئیں۔ اگر کچھ سمجھ آئے تو مجھ جیسے ان پڑھ کو بھی سمجھائیے گا۔ اللہ والو! اب اس بات کو تنقید نہ سمجھ بیٹھنا، یہ معاملہ اتنا الجھا ہوا ہے کہ مجھے واقعی سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ سب کیوں اور کس لئے ہو رہا ہے۔
ملالہ کی ڈائری:- پہلی قسطدوسری قسطتیسری قسطچوتھی قسطپانچویں قسطچھٹی قسطساتویں قسطآٹھویں قسطنویں قسطدسویں قسط

No comments: