کمپیوٹر کی کہانی
٭قاضی مشتاق احمد
نیو یارک کی سڑکوں پر رات کے وقت پولیس کوایک کارگلی میں پارک کی ہوئی نظر آتی ہے۔ وہ اپنی گشتی گاڑی کے فون سے تھانے سے کارکا نمبرمعلوم کرتا ہے۔ صرف آدھے منٹ کے اندر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کار کس کے نام پررجسٹرڈ ہے اور یہ گاڑی چوری ہو جانے کی رپورٹ تھانے میں درج ہے۔ یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ گشتی دستہ ایک منٹ کے اندر ہی قانونی کارروائی شروع کردیتا ہے۔بلجیم کے راستے پرایک خطرناک حادثے میں ایک نوجوان مر گیا ہے اس کی لاش اسپتال میں پوسٹ مارٹم کے لئے آئی ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ یورپ کے سارے اسپتالوںکو بیک وقت میہا کی جارہی ہے اور فوراً یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ جرمنی کے ایک مریض کو اورلندن کے ایک دوسرے مریض کو بلجیم میں مرنے والے نوجوان کے گردے کام آسکتے ہیں۔ ایک گھنٹے کے اندرہی ایک گردہ جرمنی اوردوسرا لندن ہوائی جہاز کے ذریعہ روانہ ہو جاتا ہے اورزندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا دو مریض نئی زندگی پاتے ہیں۔ لندن کی ایک کانفرنس میں شکاگو کا ایک سائنسداں یکا یک بے ہوش ہوجاتاہے۔ شکاگو کوفوراً فون پرمطلع کیا جاتاہے سائنس داں کے اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی پانچ منٹ کے اندر اندر سیکڑوں میل دور سے اس بے ہوش سائنس داں کے بارے میں ساری معلومات مل جاتی ہیں کہ اس کے خون کاگروپ کیا ہے۔ اسے کن دواو ¿ں سے الرجی ہے۔ آج تک اسے کون کون سے بیماریاں اور مرض ہوئے ہیں اورسائنس داں کے اسپتال میں داخل ہوتے ہی علاج شروع ہوجاتا ہے۔
یہ سب خیالی قصے نہیں بلکہ سچے واقعات ہیں۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ یہ سب اس عظیم ایجاد کے کرشمے ہیں جسے کمپیوٹر کہتے ہیں۔ آج دنیا میں جو کمپیوٹر استعمال کئے جارہے ہیں وہ عام طور پرٹی وی کی طرح نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ٹائپ رائٹر کی طرح ایک کی بورڈ ہوتا ہے جو کمپیوٹر کے پردے پر نظر آنے والی معلومات فوراً ٹائپ کر کے اس کی کاپی مہیا کر سکتا ہے۔ کمپیوٹر کا استعمال صرف جمع تفریق کے لئے نہیں ہوتابلکہ نہایت ہی پیچیدہ حساب حل کرنے کے لئے بھی ہوتاہے۔ اس کی مہیا کی ہوئی معلومات جس طرح بھی چاہیں استعمال ہوسکتی ہےں۔
الیکٹرانک کمپیوٹر کا استعمال گذشتہ تیس چالیس برسوں سے ہو رہاہے۔ کہا جاتاہے کہ تیس ہزار سال قبل از مسیح چینی اور جاپانی لوگ، ایبکس نامی ایک مشین کا استعمال جمع تفریق کے حساب کے لئے کرتے تھے۔ لکڑی کی چوکھٹ میں تار بٹھائے جاتے تھے اوران تاروں میں رنگین لکڑی کی گوٹیاں رکھی جاتی تھیں۔ 1642میں بلیز پاسکل نامی ایک فرانسیسی نے اس میں اور ترقی کی۔ یہ مشین رکشا یا اسکوٹر کے ’آڈومیٹر‘ کی طرح تھی۔ (یہ میٹر فاصلہ بتاتے ہیں یا رکشا کے موٹر کاکرایہ دکھاتے ہیں۔) 1671میں ولیم لائی نیز نامی ایک جرمن حساب داں نے اسے نیا روپ دیا اور 1694میں اس نے اپنا کام پورا کیا۔ حساب جمع تفریق کرنے والی مشین ایجاد ہوئی۔ لیکن جدید کمپیوٹر کا موجد ہے چارلس بیز جو انگلستان کا رہنے والاتھا اس نے 1822میں ’ڈفرنس انجن‘ کے نام سے کمپیوٹر ایجاد کیا۔ اس کے بعد اس میں مزید اصلاح کر کے اسے انالیٹکل انجن کا نام دیا اور دھیرے دھیرے جدید کمپیوٹر ایجادہوا۔ آج برٹش ایئرویز 70ملکوں میں 650شہروں کی بکنگ آفسوں کا کام کمپیوٹر کی مدد سے کرتی ہے۔ ہر روز چالیس ہزارمسافروں کی بکنگ کا کام ہوتاہے۔ سیکنڈوں میں کمپیوٹر کے ذریعے یہ معلومات مل جاتی ہے کہ ریزرویشن کے لئے کتنی سیٹیں خالی ہیں۔ اب بینکوں میں بھی کمپیوٹر کا استعمال عام ہے۔ صرف بٹن دبا کر یہ دیکھا جاسکتاہے کہ بینک کے کھاتے دار کی دستخط اصلی ہے یا بناوٹی۔ پیسے نکالنے اور جمع کرنے کا حساب بھی کمپیوٹر کرتاہے۔ مقناطیسی چیک کمپیوٹر میں ڈالتے ہی کھاتے دارکے دستخط چیک کرنے کے بعد اس کے حساب میں چیک کی رقم ڈال کر پیسے دینے والی مشین سے مطلوبہ رقم نوٹوں اور سکوں کے ذریعے باہر آجاتی ہے۔
یہ سب خیالی قصے نہیں بلکہ سچے واقعات ہیں۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ یہ سب اس عظیم ایجاد کے کرشمے ہیں جسے کمپیوٹر کہتے ہیں۔ آج دنیا میں جو کمپیوٹر استعمال کئے جارہے ہیں وہ عام طور پرٹی وی کی طرح نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ٹائپ رائٹر کی طرح ایک کی بورڈ ہوتا ہے جو کمپیوٹر کے پردے پر نظر آنے والی معلومات فوراً ٹائپ کر کے اس کی کاپی مہیا کر سکتا ہے۔ کمپیوٹر کا استعمال صرف جمع تفریق کے لئے نہیں ہوتابلکہ نہایت ہی پیچیدہ حساب حل کرنے کے لئے بھی ہوتاہے۔ اس کی مہیا کی ہوئی معلومات جس طرح بھی چاہیں استعمال ہوسکتی ہےں۔
الیکٹرانک کمپیوٹر کا استعمال گذشتہ تیس چالیس برسوں سے ہو رہاہے۔ کہا جاتاہے کہ تیس ہزار سال قبل از مسیح چینی اور جاپانی لوگ، ایبکس نامی ایک مشین کا استعمال جمع تفریق کے حساب کے لئے کرتے تھے۔ لکڑی کی چوکھٹ میں تار بٹھائے جاتے تھے اوران تاروں میں رنگین لکڑی کی گوٹیاں رکھی جاتی تھیں۔ 1642میں بلیز پاسکل نامی ایک فرانسیسی نے اس میں اور ترقی کی۔ یہ مشین رکشا یا اسکوٹر کے ’آڈومیٹر‘ کی طرح تھی۔ (یہ میٹر فاصلہ بتاتے ہیں یا رکشا کے موٹر کاکرایہ دکھاتے ہیں۔) 1671میں ولیم لائی نیز نامی ایک جرمن حساب داں نے اسے نیا روپ دیا اور 1694میں اس نے اپنا کام پورا کیا۔ حساب جمع تفریق کرنے والی مشین ایجاد ہوئی۔ لیکن جدید کمپیوٹر کا موجد ہے چارلس بیز جو انگلستان کا رہنے والاتھا اس نے 1822میں ’ڈفرنس انجن‘ کے نام سے کمپیوٹر ایجاد کیا۔ اس کے بعد اس میں مزید اصلاح کر کے اسے انالیٹکل انجن کا نام دیا اور دھیرے دھیرے جدید کمپیوٹر ایجادہوا۔ آج برٹش ایئرویز 70ملکوں میں 650شہروں کی بکنگ آفسوں کا کام کمپیوٹر کی مدد سے کرتی ہے۔ ہر روز چالیس ہزارمسافروں کی بکنگ کا کام ہوتاہے۔ سیکنڈوں میں کمپیوٹر کے ذریعے یہ معلومات مل جاتی ہے کہ ریزرویشن کے لئے کتنی سیٹیں خالی ہیں۔ اب بینکوں میں بھی کمپیوٹر کا استعمال عام ہے۔ صرف بٹن دبا کر یہ دیکھا جاسکتاہے کہ بینک کے کھاتے دار کی دستخط اصلی ہے یا بناوٹی۔ پیسے نکالنے اور جمع کرنے کا حساب بھی کمپیوٹر کرتاہے۔ مقناطیسی چیک کمپیوٹر میں ڈالتے ہی کھاتے دارکے دستخط چیک کرنے کے بعد اس کے حساب میں چیک کی رقم ڈال کر پیسے دینے والی مشین سے مطلوبہ رقم نوٹوں اور سکوں کے ذریعے باہر آجاتی ہے۔
No comments:
Post a Comment