اگرجاگ پنجابی قبول تو جاگ سرائیکی تعصب کیوں؟
Published on 19. Oct, 2012
تحریر: خضر حیات
ہمارے ساتھ دلچسپ صورتحال یوں ہے کہ سرائیکی دھرتی کیساتھ تخت لاہور کی
واردات کا تذکرہ کربیٹھیں تو اسلام آباد میں دوست ناراض ہوجاتے ہیں۔ہماری
بات کو گستاخی قراردے کر معاملہ کی سنگینی پر باقاعدہ لیکچرکی صورت میں
کلاس لینا شروع کردیتے ہیں۔زوراس بات پر دیاجاتاہے کہ ملک اس وقت مشکل
حالات میں گھرا ہواہے اور آ پ کو صوبوں کی پڑی ہوئی ہے۔ آپ اس بات کو کیوں
نہیں سمجھ رہے ہیں کہ پنجاب میں نئے صوبوں کا معاملہ چل نکلا تو پھر سب
قومیں صوبوں کیلئے متحرک ہوجائینگی۔ جیسے ابھی پنجاب میں صوبوں کے معاملے
کیساتھ مہاجر صوبہ اور ہزارہ صوبہ کے مطالبہ میں شدت آرہی ہے۔ کچھ تو خیال
کریں ! لسانی بنیادوں پر صوبوں کا قیام تو ملک کو تباہ وبرباد کردیگا ۔جوش
خطاب میں اس حدتک چلے جاتے ہیں کہ پنجاب کے بٹوارہ کو ملک کی سلامتی کیخلاف
سازش قراردیتے ہیں۔ریاض پیرزادہ اس معاملے پر تقریر فرمارہے ہوں تو وہ
سرائیکی صوبہ کے معاملے کو بھارتی خفیہ ایجنسی را کی کارستانی قراردیتے
ہیں۔
ادھر ہم ان کی توجہ بیشک اس بات کی طرف دلاتے ر ہیں کہ پنجاب کو ٹکڑے
کرنے کیلئے پنجاب اسمبلی سے قراردادوں کی منظوری مسلم لیگ (ن) کی لیڈرشپ کی
کاریگری ہے تو وہ ہماری بات کو سننے پر تیار ہی نہیں ہوتے ہیں ۔ان کیلئے
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف کا بحیثت وزیراعلی پنجاب” جاگ
پنجابی جاگ” کا نعرہ توقابل قبول ہے لیکن ملتان ،ڈیرہ غازی خان ،اور
بہاولپور کے عوام کا پنجاب کی تقسیم کا جائزمطالبہ بے چینی کا سبب بنتاہے۔
پچھلے دنوں پارلیمنٹ کے مرکزی دروازے پرمسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنما
سینیٹر پرویزرشید صحافیوں کوپنجاب حکومت کی کارکردگی پر آگاہ کررہے تھے
۔میں بھی توجہ کیساتھ ان کی باتوں کو نوٹ کررہاتھا جس میں وہ پنجاب حکومت
کو ملک کی بہترین حکومت قراردرے رہے تھے ۔یقیناًسب کو اپنی پارٹی کے دفاع
کا حق حاصل ہے۔اس دوران سوال وجواب کا سیشن شروع ہواتو میں نے پرویزرشید کو
رائیونڈ کو تحصیل کا درجہ دینے پر مبارکباد دی جو انہوں نے بخوشی قبول
کرلی پھر میں نے عرض کیا سینڑ صاحب اس بات کی وضاحت کردیں کہ بہاولپور قیام
پاکستان سے لیکر آج تک تین اضلاع بہاولپور رحیم یار خان اور بہاولپور پر
مشتمل ہے جبکہ اپر پنجاب میں آپ نئی تحصلیں اور اضلاع بنارہے ہیں ۔ ایسی
تفریق آپ جیسے سمجھدار سیاستدانوں کی موجودگی میں کیوں ہورہی ہے ؟ میر ا
آخری لفظ ابھی منہ میں تھاکہ پرویز رشید صاحب جواب کیلئے بے چین ہورہے تھے
۔میرا خیال تھاکہ آج اور نہیں تو پرویز رشید اس بات کی تسلی کروانے لگے ہیں
کہ بہاولپور میں نئے اضلاع کے معاملہ پر کا م جلدشروع ہوگا لیکن دلچسپ
صورتحال اس وقت پیداہوئی جب انہوں نے میرے سوال کو تعصب پر مبنی قراردیااور
چل پڑے۔
لاہور سے شائع ہونے والا اردو کا نیا روزنامہ ‘ دنیا ” وفاقی دارلحکومت
اسلام آباد میں تاحال اس طرح آسانی سے دستیاب نہیں ہے جس طرح دیگر اخبارات
مل رہے ہیں لیکن ہم خوش قسمت ہیں کہ” روزنامہ دنیا لاہور ”کی کاپی حاصل
کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔اورسب سے زیادہ نامور کالم نگاروں سے اخبار
کیساتھ مارکیٹ میں آنیوالے اخبار کے قاری ہیں۔ادارتی صفحہ پر اکثراوقات
ہارون رشید ،خالد مسعود خان، محمد اظہار الحق ، عمار چودھری اور ارشاد
محمود کے ساتھ ساتھ ڈاکڑ انواراحمد سے بھی ملاقات ہوجاتی ہے۔
”روزنامہ دنیا لاہور ” کے دورپوٹروں نے ایک ہی روز دو ایسی سٹوریاں فائل
کیں جوکہ تخت لاہور کی واردات کو حقیقی معنوں میں عیاں کررہی تھیں۔جن کو
میرا خیال ہے وہ کالم نگار ٹھنڈے دل ودماغ کیساتھ پڑھیں جو اس بات پر درس
دیتے ہیں کہ پنجاب میں دود ھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں اور اسمیں
سرائیکی اور بہاولپور صوبہ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ان دونوں رپوٹروں کی خبروں
کو اپنے کالم میں شکریہ کیساتھ اسی طرح لکھ رہاہوں جیسے” روزنامہ
دنیالاہور”میں شائع ہوئی ہیں تاکہ سند رہے۔
لاہور ( خصوصی رپورٹر )پنجاب حکومت کی طرف سے لاہور سے تعلق رکھنے والے
مسلم لیگ (ن) کے ارکان پر نوازشات کا سلسلہ جاری ہے ۔ارکان اسمبلی کی
درخواست پر 25کروڑ روپے کے مزیدترقیاتی فنڈز کا اجرا اور اسکیموں کی منظوری
دیدی گئی ہے۔پی پی 149سے ٹکٹ ہولڈر رانا مبشر کی 6کروڑ روپے اور این اے
130سے ٹکٹ ہولڈر سعدیہ شبیر کی دوکروڑ روپے ترقیاتی سکیموں کی بھی منظوری
دے دی گئی ہے ۔بلال یسین کی تین کروڑ روپے اور این اے 128 کے رکن قومی
اسمبلی ملک افضل کھوکھر کی 7کروڑ روپے ترقیاتی سکیمیں منظوری کرلی گئی ہیں
۔پی پی 149سے منتخب ہونیوالے رکن صوبائی اسمبلی زعیم قادری مزید پانچ کروڑ
روپے کی ترقیاتی سکیمیں منظورکروانے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔واضع رہے کہ یہ
ترقیاتی فنڈز ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پروگرام کے علاوہ ہیں۔
لاہور( محمد حسن رضا ) پنجاب حکومت نے جنوبی پنجاب کے غریب کسانوں کی
معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے حوالے سے محکمہ زراعت کی جانب سے بھیجا گئے
پراجیکٹ کو ”فنڈز” کی کمی کے باعث مسترد کردیا۔تفصیلات کے مطابق محکمہ
زراعت کی جانب سے جنوبی پنجاب کے غریب کسانوں کی معاشی صورتحال کو بہتر
بنانے کے حوالے سے ایک پراجیکٹ ”ری کلمیشن آف سالٹ ایفکیڈ اینڈ واٹر
لوگڈلینڈ کلر” اور شوزدہ زمینوں کی بحالی کے نام سے ایک پراجیکٹ پلاننگ
اینڈ ڈوپلیمنٹ ڈپارٹمنٹ کو بھیجا گیا جس میں انہوں نے بتایا کہ جنوبی پنجاب
میں 80 ہزار ایکڑ زمین موجود ہے جسے استعمال کرتے ہوئے بہاولپور ،خانیوال
،مظفرگڑھ اور گردونواح کے ہزاروں کسانوں کی معاشی حالت بہتر ہوسکتی ہے
۔محکمہ زراعت نے یہ بھی بتایاکہ یہ پراجیکٹ محکمہ ایک سال پہلے 2012-13 کے
ایگریکلچر ڈ ویلپمنٹ پراجیکٹ رکھنے کیلئے دیاتھا لیکن آخری مراحل میں اس
پراجیکٹ کو حکومت پنجاب کی طرف سے نکال دیاگیاتھا ۔انہوں نے بتایا کہ اس
وقت جنوبی پنجاب کے غریب کسانوں کی معاشی صورتحال بہترنہ ہے جسے بہتر کرنے
کیلئے پراجیکٹ لانے کی اشد ضروت ہے ۔اگر ایگر یکلچر ڈپارٹمنٹ نے اپنی
تجاویز میں بتایا کہ” کلر مکاؤ” فیز تھری میں اس پراجیکٹ پر ایک ارب 31کروڑ
96 لاکھ 78ہزار روپے خرچہ آئیگا جبکہ(RRE-PDWP) اس پراجیکٹ پر 77کروڑ روپے
سپانسر کررہاہے لیکن پنجاب حکومت نے یہ کہہ کر اس پراجیکٹ کو مسترد
کردیاہے کہ پنجاب حکومت کے پاس اس پراجیکٹ کیلئے کوئی فنڈز نہ ہے ۔واضع رہے
کہ اس حوالے سے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ لاہور میں اجلاس ہوا جس کی
سربراہی چیرمین پی اینڈ ڈی بورڈ جاوید اسلم نے کی ۔فنانس ڈپارٹمنٹ ،ایگری
یکلچرڈپارٹمنٹ ،ڈائریکٹوریٹ جنرل ڈپارٹمنٹ ،پی ای آر آئی ڈپارٹمنٹ ،اینوئر
نمنٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے افسران نے شرکت کی اور اس میٹنگ میں اس پراجیکٹ
کیلئے فنڈز نہ ہونے کے باعث اسے مسترد کردیا۔
کارٹون: بشکریہ صابر نظر
No comments:
Post a Comment